Urdu

6/recent/ticker-posts

اردو کے نامور شاعر میر تقی میر : کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

اردو کے نامور شاعر میر تقی میر کو اس دارِ فانی سے گزرے آ ج دو سو دس سال کا عرصہ گزر گیا لیکن ان کا کلام آ ج بھی دلوں پہ سحر طاری کر دیتا ہے۔ میر تقی میر آگرہ میں 1723ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد علی تھا لیکن علی متقی کے نام سے مشہور تھے اور درویش گوشہ نشین تھے۔ میر نے ابتدائی تعلیم والد کے دوست سید امان للہ سے حاصل کی مگر مزید تعلیم سے پہلے جب میر ابھی نو برس کے تھے وہ چل بسے۔ اس کے بعد ان کے والد نے خود تعلیم و تربیت شروع کی۔ مگر چند ماہ بعد ہی ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ یہاں سے میر کی زندگی میں رنج و الم کے طویل باب کی ابتداء ہوئی۔ تلاشِ معاش کی فکر میں دہلی پہنچے اور ایک نواب کے ہاں ملازم ہو گئے۔ مگر جب نواب موصوف ایک جنگ میں مارے گئے تو میر آگرہ لوٹ آئے۔ لیکن گزر اوقات کی کوئی صورت نہ بن سکی۔ چنانچہ دوبارہ دہلی روانہ ہوئے۔

میر کا زمانہ شورشوں اور فتنہ و فساد کا زمانہ تھا۔ مسلسل تنگدستی اور مشکلات برداشت کرنے کے بعد بالآخر میر گوشہ عافیت کی تلاش میں لکھنؤ روانہ ہو گئے۔ مولانا محمد حسین آزاد ''آبِ حیات‘‘ میں لکھتے ہیں۔ '' میر تقی میر جب لکھنؤ چلے تو گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہو گئے تو دلی کو خدا حافظ کہا۔ تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی۔ یہ اُس کی طرف سے منہ پھیر کر ہو بیٹھے۔ کچھ دیر کے بعد پھر اُس نے بات کی۔ میر چیں بچیں ہو کر بولے کہ صاحب قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے۔ بے شک گاڑی میں بیٹھئے مگر باتوں سے کیا تعلق! اس نے کہا۔'' حضرت کیا مضائقہ ہے۔ راہ کا شغل ہے باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ ‘‘

میر صاحب بگڑ کر بولے کہ خیر آپ کا شغل ہے۔ میری زبان خراب ہوتی ہے۔ لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے ایک سرائے میں اُترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں مشاعرہ ہے۔ رہ نہ سکے۔ اُسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جا کر شامل ہوئے۔ ان کی وضع قدیمانہ تھی۔ کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، اک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پٹڑی دار تہہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع پاجامہ، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخل محفل ہوئے تو انہیں دیکھ کر سب لوگ ہنسنے لگے، میر نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اجڑے دیار کے

سب کو حال معلوم ہوا تو میر تقی میر سے بہت معذرت طلب کی۔ میر نے اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ یہاں رْباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

دکھائی دیے یوں کہ بیخود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔ مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہلِ ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد ِمیر نہیں

سعید واثق

بشکریہ دنیا نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments