Urdu

6/recent/ticker-posts

ماہرِ لسانیات، نقاد اور نامور ادیب ڈاکٹر جمیل جالبی

ایسی شخصیات کچھ کم نہیں ہیں جنہوں نے عمر بھر بے پناہ کام کیا اور علم و دانش کے موتی بکھیرے۔ اتنی کتابیں تصنیف کیں کہ ایک طویل مدت تک انہیں یاد رکھا جائے گا۔ ایسی ہی ایک شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی کی تھی جن کا اصل نام محمد جمیل خان تھا۔ جمیل جالبی 12 جون 1929ء کو علی گڑھ کے یوسف زئی خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں حاصل کی اور سہارنپور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے میرٹھ کالج سے گریجوایشن کی۔ 13 اگست 1947ء کو وہ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔

انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور پھر ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے پی ایچ ڈی بھی کی۔ پھر انہوں نے محکمہ انکم ٹیکس میں کام شروع کیا اور ریٹائرمنٹ تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔ 1983ء میں وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن گئے۔ یہاں انہوں نے 1987ء تک کام کیا۔ پھر انہیں مقتدرہ قومی زبان کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ ان کی وابستگی کرار حسین ، جالب دہلوی اور غیور احمد رمزی سے رہی۔ وہ 1950ء سے 1954ء تک اردو کے ایک ماہنامہ جریدے ’’ساقی‘‘ میں معاون ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ اس جریدے میں ’’باتیں‘‘ کے عنوان سے ہر ماہ کالم لکھتے رہے۔

انہوں نے ’’نیا دور‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی جریدے کا اجرا بھی کیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے عمر بھر لکھنے پڑھنے کا کام کیا۔ وہ وسیع المطالعہ اور وسیع النظر تھے۔ وہ ایک زبردست محقق تھے۔ ادبی تاریخ رقم کرنا ہرگز آسان کام نہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے 70 سال ادب کے حوالے سے کام کیا۔ ویسے تو ان کی کئی تصنیفات قابل تحسین ہیں کیونکہ انہوں نے مختلف موضوعات پر اپنے مطالعے اور تحقیق کی بنیاد پر خامہ فرسائی کی لیکن چار جلدوں پر مشتمل ان کی تصنیف ’’تاریخِ ادبِ اردو‘‘ کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ اس کتاب نے ادبی تاریخ پر لکھی ہوئی دوسری تمام کتابوں پر سبقت حاصل کی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس کتاب نے جمیل جالبی کی دوسری تصنیفات کو بھی گہنا دیا۔ 

ان حقائق سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ انہوں نے کتنی محنت اور تحقیق کی ہو گی۔ مشہور ادیب اور محقق رام بابو سکسینہ کی کتاب ’’تاریخِ ادبِ اردو‘‘ نے بھی بہت شہرت حاصل کی تھی لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب کے کیا کہنے۔ یہ ایک ایسی نادر دستاویز ہے جسے کبھی نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔ پروفیسر عبدالعزیز ساحر نے اپنی کتاب ’’جمیل جالبی : شخصیت اور فن‘‘ میں جس اعلیٰ طریقے سے جالبی صاحب کے فن کے تمام پہلوؤں کا محاکمہ کیا ہے اس پر ساحر صاحب بھی داد کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر جالبی نے مختلف ادبی اور تعلیمی اداروں میں بڑے اہم عہدوں پر کام کیا۔ انہوں نے محکمہ انکم ٹیکس میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے شمولیت اختیار کی تھی۔ 

حیران کن بات یہ ہے کہ ڈاکٹر جالبی سرکاری فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ اتنا زبردست تحقیقی کام بھی کرتے رہے۔ ان کی ایک تصنیف ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ بھی ادب اور فلسفے کے طلبا کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کتنی عرق ریزی سے یہ کام کیا۔ یہ ایک ایسا تحقیقی کام ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ انہوں نے ارسطو کے فلسفے سے لے کر ٹی ایس ایلیٹ کی تخلیقی تنقید اور باکمال شاعری کو اپنے منفرد اسلوب میں بیان کیا جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انہوں نے قاری کو وہ علم دیا جس کی اسے ہمیشہ تلاش رہتی ہے۔ وہ تاریخ کو اس کے صحیح تناظر میں پیش کرنے کا ملکہ رکھتے تھے اور ان کی تنقید کی بھی کئی پرتیں تھیں۔ 

وہ اپنی بات کو منطق اور دلیل کے ساتھ پیش کرتے تھے اور ہر تخلیق کا اس کی تمام جزویات کے ساتھ جائزہ لیتے تھے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتابوں میں ’’پاکستانی ثقافت، تنقید اور تجربہ، نئی تنقید، ادب، ثقافت اور مسائل، معاصرِ ادب، قومی زبان، دیوانِ حسن شولی، قدیم اردو لغت، تاریخِ ادبِ اردو، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک، دیوانِ نصرتی‘‘ اور دیگر کئی کتابیں شامل ہیں۔ ان کی گرانقدر ادبی خدمات کی بنا پر انہیں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ اور’’ستارۂ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کو بابائے اردو مولوی عبدالحق ایوارڈ بھی دیا گیا۔ انہیں ’’کمالِ فن ایوارڈ‘‘ کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ 18 اپریل 2019ء کو ڈاکٹر جمیل جالبی 89 برس کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ایسے لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔  

عبدالحفیظ ظفر

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments