Urdu

6/recent/ticker-posts

ڈرامے کی تاریخ اور آغا حشر

ہندوستان میں ڈرامے کی روایت قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔ اس کی ابتداء کی نشاندہی چوتھی صدی قبل مسیح سے کی جاتی ہے۔ ڈراما ہند آریائی تہذیب کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ قدیم آریائی تہذیب جب اپنے عروج پر تھی تو اس کے ساتھ سنسکرت ڈراما بھی اپنی تمام تر لطافتوں اور نزاکتوں اور اپنی مخصوص روایات کو اپنے دامن میں سمیٹے درجہ کمال کو پہنچ چکا تھا لیکن آریائی تہذیب و معاشرت کے زوال کے ساتھ ساتھ سنسکرت ڈرامے پر بھی انحطاط کے بادل چھا گئے۔ عوام نے اپنی دلچسپی اور تفریحی شوق کی تسکین کے لیے رام لیلا، کرشن لیلا اور اسی طرح کے دوسرے مذہبی، عشقیہ اور معاشرتی کھیلوں کا سہارا لیا۔ ان تماشوں اور کھیلوں کے لیے نہ کوئی مخصوص عمارت ہوتی تھی اور نہ کوئی باقاعدہ اسٹیج ہوتا تھا بلکہ یہ میدانوں یا سڑکوں پر ادا کئے جاتے تھے۔ ان کی مروّجہ صورتیں سوانگ، بہروپ اور نوٹنکی وغیرہ تھیں۔

نواب واجد علی شاہ کو اردو کا پہلا ڈرامہ نگارکہا جاتا ہے اور ان کا رہس ''رادھا کنھیّا کا قصہ‘‘ اردو ڈرامے کا نقشِ اول ہے۔ یہ رہس واجد علی شاہ کی ولی عہدی کے زمانے میں ''قیصر باغ‘‘ میں 1843ء میں بڑی شان سے کھیلا گیا۔ ایک طرف واجد علی شاہ کے رہس تھے جو ''قیصر باغ‘‘ کی چہار دیواری تک محدود تھے تو دوسری طرف تقریباً کچھ ہی عرصے بعد یعنی 1853ء میں سید آغا حسن امانت کا ''اندر سبھا‘‘ عوامی اسٹیج پر پیش کیا جا رہا تھا۔ گو تاریخی لحاظ سے واجد علی شاہ کے رہس کو امانت کے اندر سبھا پر تقدم حاصل ہے لیکن بے پناہ شہرت، ہر دلعزیزی اور قبولِ عام کی سند ''اندر سبھا‘‘ کے حصے میں آئی۔ ڈھاکہ میں "اندر سبھا" کی بدولت اردو تھیٹر نے ترویج و ترقی کی کئی منزلیں طے کیں، کئی تھیٹریکل کمپنیاں وجود میں آئیں۔

اردو ڈرامے کا دوسرا اہم مرکز بمبئی تھا۔ جس زمانے میں شمالی ہندوستان یعنی اودھ  اور اس کے مضافات میں اندر سبھا دکھایا گیا تقریباً اسی زمانے میں اندر سبھا بمبئی کے اسٹیج پر پیش کیا گیا اور اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ حافظ عبد اللہ ''لائٹ آف انڈیا تھیئڑیکل کمپنی‘‘ سے وابستہ رہے۔ یہ انڈین امپیریل تھیٹریکل کمپنی فتحپور کے مالک بھی تھے۔ حافظ عبداللہ کے ڈراموں میں ''عاشق جانباز، ہیر رانجھا، نور جہاں، حاتم طائی، لیلیٰ مجنوں، جشن پرستان‘‘ وغیرہ مشہور ہوئے۔ نظیر بیگ، حافظ عبداللہ کے شاگرد تھے۔ یہ آگرہ اور علی گڑھ کی تھیٹریکل کمپنی ''دی بے نظیر اسٹار آف انڈیا‘‘ کے مہتمم تھے۔ ان کے مندرجہ ذیل ڈرامے مقبول ہوئے۔ نل دمن، گلشن پا کد امنی عرف چندراؤلی لاثانی اور نیرنگِ عشق، حیرت انگیز عرف عشق شہزادہ بے نظیر و مہر انگیز وغیرہ۔ ایک ڈرامہ ''قتلِ نظیر‘‘ ہے جو 1910ء میں الفریڈ تھیٹریکل کمپنی نے اسٹیج کیا۔ یہ ڈرامہ پہلا ڈرامہ ہے جو کسی حقیقی واقعہ یعنی طوائف نظیر جان کے قتل پر مبنی ہے۔

جس شخصیت نے برصغیر میں ڈرامہ سٹیج میں نام کمایا ان میں آغا حشر بہت مقبول ہوئے ۔ آغا محمد شاہ نام، حشر تخلص، والد کا اسم آغا غنی شاہ تھا۔ آغا حشر کی پیدائش یکم اپریل 1879 ء کو بنارس میں ہوئی۔ حشر کی عربی و فارسی کی تعلیم گھر پر ہوئی اور انگریزی تعلیم انھوں نے جے نرائن مشن سکول بنارس میں حاصل کی۔ آغا حشر ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ نہ صرف اعلیٰ درجے کے مایہ ناز ڈرامہ نگار تھے بلکہ باکمال شاعر، شعلہ بیان مقرر اور خطیب بھی تھے۔ ان کی تعلیم تو واجبی ہی تھی مگر ذاتی مطالعے کی بناء پر انھوں نے اردو، فارسی اور ہندی میں فاضلانہ استعداد حاصل کر لی تھی۔ ان زبانوں کے علاوہ انھیں عربی، انگریزی، گجراتی اور بنگلہ کی بھی خاصی واقفیت تھی۔ انھیں مطالعے کا بے انتہا شوق تھا، یہاں تک کہ جس پڑیا میں سودا آتا تھا اس کو بھی پڑھ ڈالتے تھے۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ ان کا حافظہ بھی بلا کا تھا۔

حشر مشرقی تہذیب کے دل دادہ تھے۔ مغربی تہذیب سے انھیں سخت نفرت تھی۔ ملک کی سیاسی اور قوم کی زبوں حالی پر ان کا حسّاس دل تڑپ اٹھتا تھا۔ حب الوطنی اور حصولِ آزادی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان کے کئی ڈرامے ان نظریات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ حشر ایک طرف مشرقی اقدار کے پرستار اور دوسری طرف جذبہ اسلام سے سرشار تھے۔ ''شکریہ یورپ اور موجِ زمزم‘‘ ان کی وہ بے مثال نظمیں ہیں جن کا ایک ایک لفظ اسلام سے محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔ انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے جلسوں اور بمبئی کی مجالسِ مناظرہ میں روح پرور تقریروں کی بدولت حشر سامعین کے دلوں پر چھا جاتے تھے۔ انھوں نے ''آفتابِ محبت‘‘ کے نام سے اپنا پہلا ڈرامہ لکھا۔ گویا ان کی ڈرامہ نگاری کے سفر کا یہ آغاز تھا۔ حشر نے کمپنی کے مالک کو جب اپنا یہ ڈرامہ دکھایا تو اس نے اْسے اسٹیج کرنے سے انکار کر دیا۔ مالک کے رویے اور اس کے انکار کا ردِ عمل حشر پر یہ ہوا کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی ڈرامہ نگاری کے لیے وقف کر دی اور کچھ ہی عرصے بعد وہ اسٹیج کی دنیا پر چھا گئے۔ 

حشر کا یہ پہلا ڈرامہ، اسٹیج تو نہ ہو سکا لیکن ''بنارس کے جواہر اکسیر کے مالک عبد الکریم خاں عرف بسم اللہ خاں نے ساٹھ روپے میں خرید لیا اور اپنے پریس میں چھاپ ڈالا۔ سال طباعت 1897ء ہے۔ اس زمانے میں شرفا ڈرامہ دیکھنا پسند کرتے تھے نہ اس کے فن کو سراہتے تھے بلکہ اس میں شریک ہونا بھی باعثِ عار سمجھتے تھے۔ ڈرامے کو ادبی اور علمی کام نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے حشر اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے لیے بنارس چھوڑ کر بمبئی چلے گئے۔ بمبئی میں کاؤس جی کھٹاؤ نے 35 روپے ماہانہ پر آغا صاحب کو اپنی کمپنی میں ملازم رکھ لیا۔ یہ آغا حشر کی تمثیل نگاری کا سنگِ بنیاد تھا۔ حشر کے ڈرامے پارسی اسٹیج پر عرصہ دراز تک کھیلے جاتے رہے جس سے حشر کی شہرت میں چار چاند لگ گئے اور کمپنیوں کو بھی خوب مالی فائدہ ہوا۔ 1913ء میں لاہو رمیں اپنی کمپنی''انڈین شیکسپیر تھیٹریکل کمپنی‘‘ کے نام سے بنائی لیکن کچھ عرصے بعد یہ کمپنی بند ہو گئی۔

آغا حشر بیوی کے انتقال کے بعد کلکتہ آگئے۔ کلکتہ میں میڈن تھیٹرز میں حشر کے کامیاب ڈرامے ہوئے۔ یہ حشر کے دور کا عروج تھا۔ 1928ء میں جب کمپنی امرتسر آئی تو آغا حشر کے ڈراموں ''آنکھ کا نشہ‘‘، ترکی حور اور ''یہودی کی لڑکی‘‘ نے ایک حشر برپا کر دیا۔ آغا صاحب نے ''شیریں فرہاد‘‘ کے بعد ''عور ت کا پیار‘‘ لکھ کر فلموں میں قابل قدر اضافہ کیا۔ آغا حشر 32 سال تک ڈرامے کی خدمت کرتے رہے انھوں نے بیک وقت اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں ڈرامے لکھے ۔ حشر نے اپنے کئی ڈراموں کے پلاٹ شیکسپیر اور دوسرے مغربی مصنفین کے ڈراموں سے اخذ کیے۔ لطیفہ گوئی اور بذلہ سنجی میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ ان کا کما ل یہ تھا کہ لطیفوں اور چٹکلوں میں خشک سے خشک بحث بھی اس طرح کرتے کہ سننے والا متاثر ہو جاتا۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کا شیوہ تھا۔ حشر کی آخری عمر لاہور میں گزری۔ وہ زندگی کے آخری دنوں میں بیمار رہے۔ وہ اپنے ڈرامے بھیشم پر تگیا (بھیشم پتاما) کو فلمانے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ 28 اپریل 1935 ء کو پیغامِ اجل آ پہنچا۔ لاہور میں قبرستان میانی صاحب میں سپردِ خاک کیے گئے۔

فضہ پروین

بشکریہ دنیا نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments