مزاحیہ شاعری بھی ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ یہ شاعری بھی وہی شاعر تخلیق کر سکتے ہیں جن کا مزاج اس طرف مائل ہو۔ اُردو کے مزاحیہ شاعروں نے کچھ کم شہرت حاصل نہیں کی بلکہ جتنی شہرت مزاحیہ نثر لکھنے والوں کو ملی، مزاحیہ شاعری کرنے والوں نے بھی اتنا ہی نام کمایا۔ ویسے تو ہمارے ہاں پنجابی کی مزاحیہ شاعری کرنے والوں کی بھی کمی نہیں اور ان میں بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ اردو کی مزاحیہ شاعری کے حوالے سے اکبر الہ آبادی کا نام سرفہرست ہے۔ ان کے بعد ضمیر جعفری اور انور مسعود نے اس کو نئی جہتوں سے آشنا کیا اور اس کا کینوس وسیع کیا۔ بیسویں صدی میں ہمیں ایک اور مزاحیہ شاعر ملے جن کے تنوع اور تخیل نے اس صنفِ ادب کو مزید عظمت بخشی۔ اُن کا نام تھا دلاور فگار۔ 8 جولائی 1929 کو بدایوں (بھارت) میں پیدا ہونے والے دلاور فگار کا اصل نام دلاور حسین تھا انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر سے ہی حاصل کی اس کے بعد انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔ اس کے بعد انہوں نے انگریزی ادبیات اور معاشیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
دلاور درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ 1968 میں وہ بھارت سے پاکستان آ گئے۔ انہوں نے عبداللہ ہارون کالج میں پڑھانا شروع کر دیا۔ اس وقت فیض احمد فیض اس کالج کے پرنسپل تھے۔ دلاور فگار نے یہاں اردو ادب پڑھایا۔ انہوں نے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انہوں نے 1942 میں 14 برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا۔ یہ ان کی خوش بختی تھی کہ مولانا جام بدایونی نے ان کی بہت معاونت کی۔ انہوں نے غزلیں بھی لکھیں، اور مزاحیہ نظمیں بھی اور پھر ان کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ انہیں شہنشاہ ظرافت اور اکبر ثانی بھی کہا جاتا تھا کیونکہ ان کی شاعری میں جو طنز اور مزاح ملتا ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ مزاحیہ شاعری کو دلاور فگار نے کسی ایک موضوع تک محدود نہیں رکھا۔ انہوں نے مزاحیہ شاعری میں سماجی اور سیاسی موضوعات بھی شامل کیے اور پھر اپنے طنز کے تیروں سے مختلف طبقوں کو نشانہ بنایا۔ طنز کی کاٹ اور مزاح کی چاشنی کے امتزاج سے انہوں نے شاندار ادب تخلیق کیا۔
چونکہ وہ بہت پڑھے لکھے تھے اس لیے ان کی شاعری کا مزاج کئی پرتیں لیے ہوتا تھا۔ ان کے خیال کی ندرت اور نکتہ آفرینی بھی قاری کو بے حد متاثر کرتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ شعری زبان بھی سہل اور سلیس تھی اور ان کی تراکیب بھی اتنی مشکل نہیں ہوتی تھیں۔ شعر پڑھنے کا بھی ان کا اپنا ایک انداز تھا جو اہلِ ادب کو بہت بھاتا تھا۔ ان کی کتابوں میں ’’مطلع عرض ہے، خدا جھوٹ نہ بلوائے، آداب عرض، خطبہِ صدارت) شامتِ اعمال اور کلیاتِ دلاور فگار‘‘ شامل ہیں۔ ناقدین انہیں اکبر الٰہ آبادی کا سچا جانشین بھی قرار دیتے ہیں۔ دلاور فگار کے بعض مزاحیہ اشعار ایسے ہیں کہ قاری کا ہنسی کے مارے بُرا حال ہو جاتا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ دلاور فگار کی مزاحیہ شاعری میں نفاست ہے اور انہوں نے سستی شہرت کے لیے گھٹیا زبان استعمال نہیں کی۔
وہ بڑے سلیقے سے طنز و مزاح تخلیق کرتے تھے۔ انہیں سماجی اور سیاسی حقائق کا مکمل ادراک تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے متعین کردہ قواعد و ضوابط کی پابندی کی۔ بہت سے نقادوں کا یہ بھی خیال ہے کہ دلاور فگار اگر فلموں کیلئے مزاحیہ شاعری لکھتے تو ان کی مقبولیت میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا۔ اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہر اردو فلم میں کہیں نہ کہیں ایسی صورت حال پیدا کی جا سکتی تھی جہاں شائقین فلم مزاحیہ گیتوں سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔ اگرچہ کافی فلموں کیلئے مزاحیہ گیت بھی لکھے گئے اور وہ مقبول بھی ہوئے لیکن اگر دلاور فگار جیسا اعلیٰ درجے کا مزاحیہ شاعر اپنے بے مثال فن کا مظاہرہ فلم میں کرتا تو بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی۔ ہم دلاور فگار کی مزاحیہ شاعری کے کچھ نمونے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
ریڈیو نے دس بجے شب کے خبر دی عید کی
عالموں نے رات بھر اس نیوز کی تردید کی
زہر بیمار کو، مُردے کو دوا دی جائے
ہے یہی رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائے
وہ شخص کبھی جس نے مرا گھر نہیں دیکھا
اُس شخص کو میں نے کبھی گھر پر نہیں دیکھا
فٹ پاتھ پہ بھی نظر آتے ہیں کمشنر
کیا تم نے کبھی اوتھ کمشنر نہیں دیکھا؟
ایک شادی تو ٹھیک ہے لیکن
ایک دو، تین، چار حد کر دی
چھ مہینے کے بعد نکلا ہے
آپ کا ہفتہ وار حد کر دی
ایک سُرخی چور نے گھر کا صفایا کر دیا
گھر جو اپنا تھا اسے بالکل پرایا کر دیا
امریکہ شعر پڑھانے گئے ہمارے دوست
خود داد لے کے آ گئے سامان رہ گیا ہے
کراچی ملکِ پاکستان کی شاہراہِ حسیں
مرنے والوں کو جہاں ملتی نہیں دو گز زمیں
ایسے گیلپ سروے کو ہم کہہ نہیں سکتے دروغ
جو یہ کہتا ہے کہ اب رشوت کو حاصل ہے فروغ
بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ دلاور فگار اپنی مزاحیہ غزلوں اور نظموں میں سنجیدہ موضوعات بھی شامل کر دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہ موضوعات بھی طنز و مزاح کی چادر میں لپٹے ہوتے ہیں۔ یہی ان کا کمال ہے۔ دلاور فگار 1998 کو عالم جاوداں کو سدھار گئے۔ ان کی وفات کے بعد 1999 میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا ان جیسے نابغہ روزگار کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں۔
عبدالحفیظ ظفر
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments