Urdu

6/recent/ticker-posts

ابنِ صفی: ایک ’’غیرادبی‘‘ ناول نگار

سوشل میڈیا سے پہلے کا زمانہ بھی خوب تھا، چھوٹے بچے اور لڑکے بالے اسکول سے آنے کے بعد کھیل کود کے لیے گھر سے نکل جاتے تھے اور سورج ڈوبنے سے پہلے والدین بچوں کو پکڑ پکڑ کر گھر لایا کرتے تھے۔ آج بچے اور لڑکے بالے موبائل اور لیپ ٹاپ لے کر گھر کے ہی کسی کمرے میں پڑے رہتے ہیں۔ والدین انہیں زبردستی باہر بھیجتے ہیں کہ جائو کہیں کھیلو کودو۔ پچھلے زمانے میں جنہیں پڑھنے لکھنے کا شوق ہوتا تھا وہ محلے کی لائبریری سے کرائے پر کوئی کتاب لے آیا کرتے تھے اور کسی کونے کھدرے میں چھپ کر پڑھتے رہتے تھے۔ کرائے پر لائی گئی کتاب میں کچھ ایسا ہوتا تھا کہ پڑھنے والا دنیا و مافیہا سے بےخبر ہو جاتا تھا۔ اُس نسل کو مطالعے کی لت لگانے والے شخص کا نام ابنِ صفی ہے۔ ابنِ صفی کے جاسوسی ناول مہینے کے مہینے چھپا کرتے تھے اور ہاتھوں ہاتھ بک جایا کرتے تھے۔ 

جو خرید نہیں سکتے تھے وہ لائبریری سے کرائے پر لے کر پڑھا کرتے تھے۔ اس زمانے میں والدین کو مطالعے کی یہ عادت بری لگتی تھی، آج کے والدین کہتے ہیں کہ ان کے بچے مطالعہ نہیں کرتے۔ اس بات کا حاصل یہ ہے کہ بڑوں کو نئی نسل کی سرگرمیوں پر ہمیشہ سے اعتراض رہا ہے۔ جب یہ نئی نسل صاحبِ اولاد ہو جاتی ہے تو اسے اپنی اولاد سے گلے شکوے پیدا ہو جاتے ہیں اور نئی نسل کہتی ہے۔ 

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ ہو
ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں کی عجیب کہانی ہے۔ اُس زمانے کے بڑے بڑے ادیب اور شاعر بھی ان کے ناول وقت گزارنے کے لیے پڑھا کرتے تھے لیکن برسر عام وہ اپنے اس ’’جرم‘‘ کا اقرار کبھی نہیں کرتے تھے۔ جس زمانے میں ابنِ صفی کے ناول بہت مقبول تھے اُس زمانے کے اردو زبان و ادب کے اساتذہ نے ابنِ صفی کو کبھی کسی کالج یا یونیورسٹی میں گھسنے ہی نہیں دیا۔ 

ان کے کسی ناول کا تجزیہ ہوا نہ تحقیقی مطالعہ۔ اگر ایم اے اردو کا کوئی طالب علم ابنِ صفی کے ناولوں پر تحقیقی مقالہ لکھنے کی اجازت طلب کرتا تو اس کا ساری کلاس کے سامنے مذاق اڑایا جاتا اور کہا جاتا ’’دیکھو! یہ ابنِ صفی کو پڑھتا ہے‘‘۔ خود مجھے بھی یہ طعنہ ایم اے کے زمانے میں اپنے استاد سے سننا پڑا تھا، وہ اردو ناول نگاروں کے بارے میں لیکچر دے رہے تھے۔ جب وہ اپنا لیکچر مکمل کر چکے تو میں نے عرض کیا ’’سر! آپ نے ابنِ صفی کا تو ذکر کیا ہی نہیں‘‘ استاد گرامی نے چھوٹتے ہی کہا ’’ابنِ صفی کے ناول ادب کی ذیل میں نہیں رکھے جا سکتے‘‘، ان کی یہ بات سن کر میں ایک اچھے شاگرد کی طرح چپ سادھ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ 

اتفاق سے ایم اے اردو کے سالانہ پرچوں میں اردو ناول نگاری کے ارتقا پر ایک سوال پوچھ لیا گیا۔ میں نےاپنی ساری بھڑاس اس پرچے میں نکالی۔ مشہور ادبی ناول نگاروں کے ساتھ ساتھ میں نے ابن صفی جیسے ’’غیر ادبی‘‘ ناول نگاری کا بھی مفصل ذکر کیا اس پرچے میں میرے نمبر دوسرے پرچوں سے زیادہ آئے ممتحن بھی شاید میری طرح ابن صفی کا عاشق تھا۔ میں لاہور کے ایک مشہور فکشن رائٹر کا انٹرویو کرنے کے لیے ان کے گھر گیا۔ ان سے ابنِ صفی کی ناول نگاری کے بارے میں استفسار کیا تو بولے ’’میں ایسی کتابیں نہیں پڑھتا‘‘، میں نے ایک اور سوال داغا ’’سر! آپ نے ان کی دو چار کتابیں تو پڑھی ہی ہوں گی؟ تبھی تو آپ نے ان کے بارے میں ایک رائے قائم کی ہے‘‘۔ بولے ’’نہیں۔ کچھ کتابیں میں سونگھ کر رکھ دیتا ہوں‘‘۔ میں آج واشگاف انداز میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھے مطالعے کی لت ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں سے لگی۔ میری طرح ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جو ابنِ صفی کے ’’غیرادبی‘‘ ناول پڑھ کر ’’خراب‘‘ ہوئے۔ 

میرا کہنا تو یہ ہے کہ ابنِ صفی نے ادب عالیہ لکھنے والوں کو اچھے پڑھنے والے دیے ہیں۔ ابنِ صفی کے ناول آپ آج بھی اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ان میں آپ کو نہایت شستہ اور شائستہ زبان ملے گی۔ شگفتگی، ظرافت، بذلہ سنجی اور مزاح کی چاشنی ملے گی۔ چونکہ ابنِ صفی شاعر بھی تھے اس لیے ان کی نثر کہیں کہیں مقفیٰ اور مسجع ہو جاتی ہے۔ منتخب شعروں کی پیوندکاری کا ہنر بھی ہمارے ابنِ صفی کو آتا تھا۔ چونکہ وہ بذاتِ خود ایک نفیس آدمی تھے اس لیے ان کا شعروں کا انتخاب اُنہیں رسوا نہیں ہونے دیتا تھا۔ وہ تحریف نگاری کے فن سے بھی آشنا تھے۔ کسی کے شعر میں دو تین لفظ بدل کر وہ مفہوم کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے تھے۔ تحریف کرتے ہوئے وہ اس بات کا پورا خیال رکھتے تھے کہ شعر کا وزن قائم رہے۔ میں آج کے زمانے کے کئی مشہور مزاح نگاروں کو جانتا ہوں جو تحریف کرتے ہوئے شعر کو بےوزن کر ڈالتے ہیں۔ جب ان سے اس ’’غیر پارلیمانی‘‘ حرکت کے بارے میں دریافت کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ مزاح میں سب چلتا ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ اگر مزاح میں سب چلتا ہے تو پھر مشتاق احمد یوسفی تحریف کرتے ہوئے شعر کا وزن کیوں قائم رکھتے تھے؟ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ آج سے چالیس سال پہلے کا سوشل میڈیا یہی ابنِ صفی کے ناول تھے۔ جس طرح آج کے والدین سوشل میڈیا کو کوستے نظر آتے ہیں، ماضی میں وہ ابنِ صفی کو مورد الزام ٹھہرایا کرتے تھے۔ ابنِ صفی کا زمانہ چلا گیا وہ 1980 میں صرف 52 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے تھے لیکن ان کے عاشقوں کی تعداد آج بھی کم نہیں۔ بہت سے ادیب اور شاعر صرف اس ظلم کی تلافی کے لیے آج ابنِ صفی کی شخصیت اور ناول نگاری پر تنقیدی و تحقیقی مقالے لکھ رہے ہیں جو انہوں نے ماضی میں اس مرد درویش پر روا رکھا۔ آج ابنِ صفی پر پاکستان ہی نہیں انڈیا کی یونیورسٹیوں میں بھی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ 

ابنِ صفی کو مسلسل پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ابن صفی شاعری بھی کرتے تھے وہ غزل کے نہایت پختہ شاعر تھے، کیوں نہ ہوتے، استاد نوح ناروی کے خانوادے سے جو تھے، ابنِ صفی شاعری کی دنیا میں اسرار ناروی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کی یہ غزل کلاسیکل گائیک حبیب ولی محمد نے گا کر امر کر دی ہے:

راہِ طلب میں کون کسی کا اپنے بھی بیگانے ہیں
چاند سے مکھڑے رشک غزالاں سب جانے پہچانے ہیں

بالآخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں

ناصر بشیر 

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments