Urdu

6/recent/ticker-posts

ابن انشا : مزاح کا اچھوتا انداز

وہ جس کے لانبے گیسو ہیں، پہچان گئے پہچان گئے
ہاں ساتھ ہمارے انشا بھی، اس گھر میں تھے مہمان گئے

''کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا‘‘ کے خالق ابن انشا پر لکھوں تو کیا لکھوں۔ شیر محمد خاں نام کا ایک شخص جو 1926ء میں جالندھر میں پیدا ہوا۔ جو آزادی کے بعد پاکستان ہجرت کر گیا۔ جس نے اردو کالج کراچی سے اردو میں ایم۔ اے۔ کیا اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کے بعد اس لیے اس سے دست بردار ہو گیا کہ محقق اور اسکالر وغیرہ بننا اس کے مزاج کے منافی تھا۔ جس نے ایک خط میں مجھے لکھا تھا کہ: ''میں برنارڈ شا کا مرید ہوں جس نے لکھا تھا کہ ساری انسائیکلو پیڈیا لکھنے کی نسبت ''ایلس ان ونڈر لینڈ‘‘ کا مصنف ہونا زیادہ پسند کروں گا۔‘‘ یہ ابن انشا میرا بڑا جگری دوست تھا۔ میرا پیارا بھائی اور مجھ پر جان چھڑکنے والا۔ اس نے مجھے بڑی اپنائیت کے ساتھ خطوط لکھے اور ان خطوط میں اپنی شخصیت کو بارہا آشکار کیا۔

لاہور میں ایک چینی موچی کی دکان تھی۔ سڑک پر گزرتے ہوئے ابن انشا نے اس دکان کے شوکیس میں رکھا ہوا ایک انوکھا اور خوبصورت جوتا دیکھا۔ فوراً وہیں رک کر دکان میں داخل ہوا اور اس کے مالک سے پوچھنے لگا ''اس جوتے کے کیا دام ہیں‘‘؟ دکاندار بولا'' مگر آپ اسے خرید کر کیا کیجیے گا یہ آپ کے پاؤں کا جوتا نہیں ہے‘‘۔ وہ بولا ''مگر میں تو اسے خریدنا چاہتا ہوں۔ میں اس کا ترجمہ کروں گا۔‘‘ ایک پراسرار اور انوکھی، طباع اور رومانی شخصیت ''جوتے کا ترجمہ‘‘ تو محض ان کی ''خوش طبعی‘‘ کا ایک مظاہرہ تھا مگر اس جوتے کی بدولت انہیں چینی شاعری کی تلاش ہوئی۔ طرح طرح کے مجموعے اور انتخابات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے اور ان کے منظوم ترجمے اردو میں کر ڈالے اور چینی نظموں کے نام سے ایک کتاب بھی شائع کی۔ اس کتاب میں قدیم چین کے لوک گیت ہیں۔ کنفیوشس کی نظمیں ہیں، چرواہوں کی تانیں، جوگیوں اور بیراگیوں کی خود کلامیاں اور ان کے اقوالِ دانش ہیں اور عہد جدید کے منظومات بھی۔

شخصیت کی اسی پراسراریت اور انوکھے پن کی وجہ سے وہ ایڈگر ایلن پو کو اپنا ''گرو دیو‘‘ کہتے تھے۔ ایڈگر ایلن پو کی انوکھی شخصیت اور اس کی شاعری نے سب سے پہلے ہمارے یہاں میرا جی کو اپنا دلدادہ بنایا تھا اور انہوں نے بہت پہلے پو کی شخصیت اور شاعری پر ادبی دنیا میں ایک مضمون لکھا تھا ۔ پو کے دوسرے عاشق ابن انشا تھے جنہوں نے پو کی پر اسرار کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اسے''اندھا کنواں‘‘ کے نام سے ایک مجموعے کی صورت میں شائع کیا۔ خود ابن انشا کی اپنی شاعری میں یہی پر اسراریت ، رومانیت اور نرالی فضا ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کا نام ''چاند نگر‘‘ ہے جو 1955ء میں مکتبہ اردو، لاہور سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام بھی پو کی ایک نظم سے مستعار ہے۔ ابن انشا اپنی اس رومانیت کے باوجود اپنے زمانے کے سماجی مسائل اور عوام کے دکھ درد کے ہی شاعر تھے۔ 

ابن انشا نئی نسل کے ان شاعروں کا سرخیل رہا جس نے پہلی بار شاعری میں ذاتی اور شخصی تجربے کی اہمیت پر زور دیا اور ترقی پسندی کے چراغ جلائے۔ پنجابی شاعری کی صنف ''سی حرفی‘‘ کو بھی میرے علم کے مطابق سب سے پہلے ابن انشا نے اپنی نظم ''امن کا آخری دن‘‘ میں برتنے کی کوشش کی۔ ابن انشا کی نظموں کی اپنی ایک فضا ہے۔ ان نظموں میں شام اور رات کے دھندلکے کو عام طور پر منظر نامے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ اور ان نظموں میں کسی گرجا کا گھڑیال بھی اکثر آتا ہے جو ہمیشہ دو ہی بجاتا ہے۔ کہیں ریل کی سیٹی بھی گونج اٹھتی ہے۔ ایک ریل کا پل بھی ہے۔ 1955ء میں ''چاند نگر‘‘ کی اشاعت اس سال کا ایک اہم ادبی واقعہ تھی۔ انشا کے مزاح کا انداز اچھوتا تھا۔ ناصر کاظمی کی ''برگ نے‘‘ بھی اسی سال شائع ہوئی۔ ابن انشا اور ناصر کاظمی دونوں سے میری ذہنی قربت دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ دوستی محض خط و کتابت تک ہی محدود تھی۔ ایک کراچی میں تھا (ابن انشا) دوسرا لاہور میں (ناصر کاظمی) اور تیسرا علی گڑھ میں (راقم الحروف) مگر نصف ملاقاتوں کے ذریعہ خوب پینگیں بڑھیں۔

ان کے مزاحیہ مضامین، بچوں کی نظمیں، غرض کہ ہر طرح کی چیزیں دیکھنے میں آئیں۔ کبھی ''چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ کے نام سے اور کبھی''ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘‘ کے عنوان سے اپنی سیاحی کا حال لکھا۔ 1960ء کے بعد اردو شاعری کے ایوان میں بڑی چہل پہل رہی۔ جدیدیت کے میلان نے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کی۔ ہم سب اسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھے اور خوب خوب دھومیں مچائیں۔ ناصر کاظمی کا بھری جوانی میں انتقال ہو گیا۔ ان کی یاد میں لاہور سے لے کر علی گڑھ تک جلسے ہوئے۔ 1978ء کے آغاز میں جب ابن انشا ایک عارضے میں مبتلا ہو کر لندن کے ایک اسپتال میں اپنی جان جان آفرین کو سپرد کرتے ہیں تو کیا انگریزی اور کیا اردو سبھی اخباروں میں اردو کے ایک مزاح نگار کی موت کی مختصر سی خبر شائع ہوئی۔ اکیاون سال کی عمر میں وفات پانے والا البیلا شاعر ''چاند نگر‘‘ جیسے مجموعے کا خالق ایک''مزاح نگار‘‘ کی صورت میں منوں مٹی کے نیچے جا سویا۔ جب ان کی میت ہوائی جہاز کے ذریعے پاکستان لائی جارہی تھی تو ان کی یہ غزل مسافروں کو سنائی گئی''انشا جی اٹھو ، اب کوچ کرو‘‘۔ وہاں موجود ہر دوسری آنکھ اشک بار ہو گئی۔

خلیل الرحمان اعظمی

بشکریہ دنیا نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments