Urdu

6/recent/ticker-posts

احمد فراز ایک رومانوی شاعر : اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

بیسویں صدی میں اقبال، فیض اور احمد ندیم قاسمی کے بعد اْردو شاعری میں ہر خاص و عام کو اپنے ہونے کا احساس کرانے میں جو شاعر کامیاب رہا وہ احمد فراز تھے۔ اگر ہم یوں کہیں کہ فیض کے بعد اگر کسی شاعر نے اس خلا کو پْر کرنے میں کامیابی حاصل کی، تو ہمارے سامنے احمد فراز کی شخصیت اْبھر کر سامنے آتی ہے۔ احمد فراز نے جہاں ایک جانب احتجاجی، انقلابی، رومانی اور علامتی شاعری کی وہیں دوسری جانب انھوں نے ایسے اشعار بھی کہے جن کی بدولت اْردو ادب میں ان کے قد میں اور اضافہ ہوا۔ دراصل یہ اشعار ہی ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بھی بنے۔ انقلابی، احتجاجی اور رومانوی شاعری کے ذریعہ احمد فراز نے اْردو ادب میں الگ مقام و مرتبہ بنایا۔ فراز کی شاعری کے چرچے ہر خاص و عام کی زبان پر ہونے لگے۔ احمد فراز کی شاعری کے تراجم دنیا کی بڑی زبانوں مثلاً فرانسیسی، ہالینڈ، یوگوسلاوی، روسی، پنجابی، جاپانی اور سویڈیش زبانوں کے علاوہ انگریزی میں ' 'ون ان دی ولڈرنیس ‘‘ اور ہندی میں '' کویتا کوش ‘‘کے نام سے ہوئے۔ 

ان کی شاعری کے تراجم ان کی عالمی شہرت کا واضح ثبوت ہے۔ احمد فراز نے اپنی شاعری کا آغاز ترقی پسند تحریک کے زیرِ سایہ کیا۔ لیکن جلد ہی انھوں نے اس تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی اور احتجاج و رومان کو اپنی شاعری میں داخل کیا۔ احمد فراز کو بجا طور پر فیض احمد فیض کا جا نشیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ دونوں کی شاعری میں قدیم و جدید طرزِ سخن کا امتزاج ہے۔ دونوں نے اپنے طور پرجلا وطنی اختیار کی اور ملکوں ملکوں خاک چھانتے پھرے۔ دونوں کو قید و بند کی صعو بتیں جھیلنی پڑیں۔ دونوں کے کلام میں کچھ ایسی غنائیت تھی کہ ان کے کلام کو برِّ صغیر کے تمام بڑے گلو کاروں نے سروں سے سجایا۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ احمد فراز اپنے ہم عصر شاعروں میں سب سے زیادہ مقبول، قابلِ قبول اور سب سے زیادہ پڑھنے اور چھپنے والے شاعر تھے۔ ان کے مدّاحوں نے بھی احمد فراز سے بے پناہ محبت کی۔ آخر کار احمد فراز کو اپنے مداحوں سے بے ساختہ کہنا ہی پڑا۔

اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
مائوں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

احمد فراز نو شہرہ میں 21 جنوری 1931ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کوہاٹ میں حاصل کی۔ ایڈورڈ کالج پشاور سے B.A کیا اور پشاور یونیورسٹی سے اْردو اور فارسی میں M.A کیا۔ گھر پر شاعری کا ماحول تھا۔ ان کے والد اپنے دور کے فارسی کے بڑے شاعر تھے۔ احمد فراز کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ ایک مرتبہ عید کے موقع پر ان کے والد کپڑے لائے، تو وہ کپڑے ننھے فراز کو اچھے نہیں لگے۔ فراز نے محسوس کیا کہ جو کپڑے ان کے بڑے بھائی کے لیے لائے گئے ہیں وہ ان کے کپڑوں سے بہتر ہیں۔ فراز نے فی البدیہیہ ایک شعر پڑھا جس میں وزن نہ سہی لیکن ردیف اور قافیہ کا اہتمام ضرور تھا۔

جب کہ سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے

احمد فراز نے اپنی زندگی میں کئی ملازمتیں کیں۔ فراز پہلے ریڈیو پاکسان پشاور سے وابستہ ہوئے پھر وہیں کے اسلامیہ کالج میں لیکچرر ہو گئے۔ بعد میں کئی بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ احمد فراز نے ''پاکستان انٹرنیشنل سینٹر‘‘، ''اْردو اکادمی ادبیات پاکستان‘‘ اور ''نیشنل بْک فاونڈیشن ‘‘ کی بھی سر براہی کی۔ لیکن ایک آزاد خیال شاعر کو ان عہدوں میں زیادہ دل چسپی زیادہ دنوں تک نہیں رہی۔ آخر کار احمد فراز نے اپنا کارِ زار شاعری کو ہی بنایا۔ احمد فراز کو صرف طویل غزلوں اور نظموں کے باعث ہی عالمی شہرت یافتہ شاعر کا درجہ حاصل نہیں رہا بلکہ وہ اْن نوجوانوں کی نمائندگی بھی کرتے تھے جو عنفوانِ شباب میں الہڑ پن، رند و مستی کے شکار ہیں اور کچّی عمر میں عشق و محبت کے لیے جینے مرنے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود فراز کم سِنی میں ایک غزال سے عشق کر بیٹھے تھے۔ اپنے جذباتوں کو انھوں نے خوب صورت لفظوں میں ڈھال کر اسے شاعری کا جامہ پہنایا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ساون، بادلوں اور برساتوں ، کالی گھنی لہراتی زلفوں اور نشیلی آنکھوں کی خوب باتیں کیں۔ اس وجہ سے ان کی شاعری نوجوانوں میں زیادہ مقبول ہے۔

سنہ 2004ء میں جب احمد فراز حیدرآباد (ہندوستان) آئے تو وہاں کے مشاعرے میں لوگوں کی زبردست فرمائش پر اپنی طویل اور مشہور غزل پڑھی۔ یہ غزل ان دنوں میں ہر نوجوان کی زبان پر تھی۔

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اْسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اْتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اْسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اْس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے د یکھتے ہیں

اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آئو ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

ان نظموں میں فراز کی انسان دوستی، جمہوریت پسندی، وسیع النظری، اخوت، بھائی چارگی، عورتوں کے حقوق کے تیئں فکر مندی، اور معاشرے میں ہونے والی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انقلابی آرزو مندی نے اکیسویں صدی کا ''عہد نامہ وفا ‘‘ رقم کیا۔  

احمد فراز کو اْردو ادب میں منفرد مقام و مرتبہ دینے والی ان کی مشہور غزل ''رنجش ہی سہی‘‘ کا شمار اْردو کی بہترین غزلوں میں ہوتا ہے۔

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

احمد فراز کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہوا۔

اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

دنیا کی کئی حکومتوں نے احمد فراز کی ادبی خدمات کے مدّنظر انھیں کئی اعزازات سے نوازا۔ انہیں ستارہ امتیاز ایوارڈ 2000ء اور ہلال ِ امتیاز ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ احمد فراز کے آخری ایام بیماری میں گزرے۔ آخر کار اْردو شاعری کو نعرہ احتجاج دینے والے احمد فراز گردے فیل ہو جانے کے سبب اسلام آباد کے مقامی اسپتال میں 25 اگست 2008ء کی شام کو چل بسے ۔ اْردو شاعری کا یہ چمکتا ہوا ماہتاب 77 سال کی عمر میں اپنے حقیقی رب کے پاس چلا گیا۔ احمد فراز نے اپنی زندگی کا آخری مشاعرہ 20-21 جون 2008 کی رات لیاقت باغ، راولپنڈی میں پڑھا۔ یہ مشاعرہ ایک 'بغاوتی مشاعرہ‘ کہلایا۔ اس کی صدارت بھی فراز کے ذمّے تھی۔ نوجوان اپنے دوستوں کو پیغام بھیجنے میں جن اشعار کا استعمال کرتے ہیں ان میں زیادہ تر فراز کے اشعار ہوتے ہیں۔ احمد فراز جیسے عظیم شاعر کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔

ابراہیم افسر
بشکریہ دنیا نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments