برصغیر پاک و ہند میں تصنیف و تالیف، تاریخ اور شخصی خاکہ نگاری میں شہرت حاصل کرنے والے محمد اسحاق بھٹی کو ہم سے بچھڑے پانچ برس بیت گئے ہیں۔ آپ نے 70 سال اپنے قلم سے اردو زبان و ادب کی خدمت کی۔ مختلف موضوعات پر ان کی کئی دینی، علمی، تاریخی اور سوانح پر کتب لوگوں سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ دنیا تیزی سے ان ہستیوں سے خالی ہوتی جارہی ہے اور کوئی نہیں جو ان کی جگہ لے سکے، جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی وہ اپنی ذات میں انجمن تھے، محض لفّاظی اور محاورے کی حد تک ہی درست نہیں، بلکہ وہ اس کے سو فیصد مصداق تھے۔ شخصیت نگاری بھٹی صاحب کا پسندیدہ موضوع تھا، سوانحی حوالے سے ’’خاکہ‘‘ بھی ایک اہم صنف ہے۔
مولانا نے اپنی تصنیفات میں جن جن شخصیات پر بھی لکھا ان کی ظاہری وضع قطع سے لے کر ان کی ذہنی بالیدگی تک ہر پہلو کو بیان کر ڈالا۔ خاکہ نگار اپنے فن میں جتنا ماہر ہوتا ہے اس تحریر کے دلچسپ ہونے کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ ایک اچھے خاکہ نگار کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ صرف کسی شخصیت کا جائزہ لینے میں ہی تاک نہ ہو بلکہ اس شخصیت کی باریکیوں کو بھی بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اس کی زندگی اور ذات کے پوشیدہ پہلوؤں کو پیش کرنے پر بھی قادر ہو، تب ہی ایک اچھا خاکہ قلم بند ہو سکتا ہے۔ اس پر ان کے گوہر بار قلم نے خوب جوہر دکھائے۔ ان کی تصنیفی خدمات کا دائرہ دور تک پھیلا نظر آتا ہے۔ ان کی تحریروں میں حد درجہ شگفتگی اور سلاست پائی جاتی ہے، اسلوبِ نگارش دل نشیں ہے۔
ان کے لکھے ہوئے سوانحی خاکے پڑھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ شخصیات میدانِ زندگی میں متحرک اور سرگرمِ عمل ہیں اور ہم ان سے ہم کلام ہیں۔ برصغیرمیں اسماء علم الرجال کے فن اور شخصیت نگاری کا سہرا مولانا بھٹی کو جاتا ہے۔ علم و فکر کی دنیا میں ایک مدت سے خزاں کا راج ہے۔ اس بے کیفی نے محمد اسحاق بھٹی کی کمی کا احساس بڑھا دیا ہے۔ وہ نیک طبع اور ملنسار انسان تھے۔ ان کی موجودگی سے محفلیں کشتِ زعفران بنی رہتی تھی، شگوفوں کا ایک طوفان ہوتا تھا۔ دستِ شفقت بھی سب کے سروں پر ہوتا تھا۔ وہ اپنی تمام تر ضعیفی کے باوجود بھی سب کے ساتھ بے تکلف دوستوں کی طرح پیش آتے۔ گفتگو نہایت سادہ مگر دل نشین اور معلومات افزا ہوتی ، مختصر اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں ساری بات کہہ جاتے تھے۔
انہوں نے وہ باتیں بیان کیں جو کسی مضمون، مقالے یا کتاب میں نہیں مل سکتیں۔ وہ اسلامی علوم کا سمندر تھے، ان کی کوئی کتاب یا تحریر ایسی نہیں ملے گی جو محض کسی غیر علمی مقصد کے لیے لکھی گئی ہو۔ بے معنی تحریر وہ لکھ ہی نہیں سکتے تھے ۔ محمد اسحاق بھٹی کا علمی کام اور ان کی شخصیت ہی ان کے لئے خراج تحسین ہے، یہ کام ان کی تحریریں خود کرتی رہیں گی لیکن قدرت کو اپنے اس نما ئندہ بندے کی بس اتنی ہی ضرورت تھی اور ان کو واپس بلا لیا گیا۔ وہ عاجزانہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ اس فقیر نے معروف شخصیات کے تذکروں سے مزین 50 ہزار صفحات لکھے ہیں جن میں بڑے بڑے خاندانوں کی تاریخ محفوظ کر دی ہے۔
وہ کہا کرتے تھے کہ بڑے خاندانوں اور شخصیات پر جو معلومات میں نے لکھ دی ہیں وہ ان کی اولاد کو بھی شائد معلوم نہ ہوں۔ وہ سماجی رکھ رکھائو کا بڑا خیال رکھتے تھے، اپنی پیرانہ سالی کے باوجود دوستوں کی خوشی غمی میں حتی الامکان شریک ہوتے۔ وہ دلوں پر راج کرنے والے شخص تھے، یہ زمانہ ان کی کمی پوری نہیں کر سکتا۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیوں ہم ایسے ہو گئے کہ ہماری محبت کے حقدار زندوں سے زیادہ مردے ہو گئے؟ ہم کیوں انسان کی قدر تب نہیں کرتے جب کہ وہ زندہ ہوتا ہے اور ہماری محبت اور توجہ کا زیادہ حقدار ہوتا ہے؟ کیوں ہم اپنی زبان سے اور اپنے فعل سے اس کی زندگی میں اس شخص سے محبت کا اظہار نہیں کر پاتے؟ کیوں اس کے تب کام نہیں آتے جب وہ ابھی ہمارے درمیان ہوتا ہے؟ ہمیں ایک انسان کی کیفیات کا خیال تب ہی کیوں آتا ہے جب وہ مرچکا ہوتا ہے کہ فلاں وقت ہم نے اپنی کسی بات سے یا اپنے کسی فعل سے اس شخص کا دل دکھایا؟
اور ہمیں کیوں افسوس ہوتا ہے کہ ہمیں اس سے معافی مانگنے کا موقع بھی نہیں ملا حالانکہ ہمیں موقع ملا ہوتا ہے لیکن ہمیں احساس صرف اس کے جانے کے بعد ہی کیوں آتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں احساس تب ہی ہوتا ہے کہ جب موقع ہمارے ساتھ سے نکل جاتا ہے۔ کاش کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کا وقت پر احساس کرنے والے ہو جائیں تاکہ ہمارے بعد آنے والے بھی ہمارا احساس ہماری زندگی میں کر لیں۔ پانچ برس بیت گئے اسحاق بھٹی مرحوم کی خدمات کے اعتراف میں ایک سیمینار کا بھی اہتمام نہیں ہوا۔ کوئی تو آگے بڑھے ۔ اندھیروں میں مقصد اور نظریے کی شمع روشن رکھنا ہی روشن ضمیر انسان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ سچا استاد تو تخلیق کار ہوتا ہے جو علم و ہُنر کو یکجا کر کے انسانی سرمایے کی تشکیل کرتا ہے ۔ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے ہیروز کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں کرتی ہیں وگرنہ ہمارے ہاں تو رواج ہے کہ اپنے اعلیٰ آدمی کو مرنے دو اور اس کے بعد بقول منیر نیازی مارنے کے بعد اس کو دیر تک روتے ہیں.
ڈاکٹر تنویر قاسم
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments