سنجیدگی کائنات کی ازلی و ابدی خصوصیت ہے اور اس کے تمام اجزا میں ایک برقی رو کی طرح سرایت کر چکی ہے۔ نتیجتاً کائنات کا ہر واقعہ کسی مجبور ستارے کی اڑان سے لے کر مکڑی کے جالے کی تعمیر تک اور باہمی کشش کی پُراسرار تپش سے لے کر بیج کی حرارتِ پنہاں تک ایک عجیب سی سنجیدگی سے ہم آہنگ ہے۔ زندگی مجموعی طور پر ایک تیز رہوار کی طرح دشت و جبل اور بحروبر کو عبور کرتی کسی نامعلوم منزل کی طرف اس والہانہ انداز سے بڑھ رہی ہے کہ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ایسی سنجیدہ کائنات اور ایسی منہ زور زندگی کے زیرِ سایہ انسان کا سنجیدہ کاوشوں اور ٹھوس تعمیری کارناموں میں یکسر منہمک ہو جانا ایک بالکل فطری امر ہے تاہم یہاں یہ خطرہ ضرور ہے کہ سنجیدہ زندگی کا ایک انتہائی سنجیدہ جزو ہونے کے باعث اس کی انفرادیت کہیں یکسر ختم نہ ہو جائے اور وہ محض ایک مشین کی طرح فطرت کے اشاروں پر ناچتا نہ چلا جائے۔
خوش قسمتی سے قدرت نے انسان کو ایک ایسی قوت بھی بخشی ہے جس سے کام لے کر وہ کائنات کی خوفناک سنجیدگی اور زندگی کی صبر آزما کشمکش پر ہنس سکتا ہے اور یوں مسکرا کر بلکہ قہقہہ لگا کر اپنی اس دیوانہ وار پیش قدمی میں دھیما پن پیدا کر سکتا ہے جو زندگی کے تیز بہاؤ سے ہم آہنگ ہے۔ چنانچہ زندگی کی بے رحم سنجیدگی اور ماحول کی ٹھوس مادیت جو قریب قریب ہر شے کو اپنے فولادی بازوؤں میں جکڑے ہوئے ہے، انسان کے احساسِ مزاح کی حدت سے پگھل کر لچکیلی اور ملائم ہو جاتی ہے۔ یہ احساسِ مزاح ماں کے اس لطیف و دلنواز تبسم کی طرح ہے جو بچوں کی طفلانہ کاوشوں اور ’’ٹھوس تعمیری کارناموں‘‘ کے پیش نظر نمودار ہوتا ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ ماں کا تبسم تو بچوں کو مزید انہماک کی ترغیب دیتا ہے لیکن احساسِ مزاح کے طفیل انسان ایک لحظہ رک کر اپنی سنجیدہ کاوشوں اور جذباتیت سے سینچی ہوئی قدروں پر ایک نظر ڈالتا ہے اور اسے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ لامحدود لازوال کائنات میں یہ کاوشیں اور قدریں کتنی معمولی حیثیت کی حامل اور کتنی طفلانہ صورت کی امین ہیں۔
مشہور لطیفہ ہے کہ کسی نے ہائیڈروجن بم کے بارے میں پروفیسر آئن اسٹائن سے اس کے خیالات دریافت کیے تو آئن اسٹائن نے مسکرا کر جواب دیا: ’’ہائیڈروجن بم سے ہماری زمین کے تباہ ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔ اور بالفرض اگر یہ تباہ ہو بھی گئی تو اس سے اتنی بڑی کائنات میں قطعاً کچھ فرق نہیں پڑے گا۔‘‘ یہ احساسِ مزاح اور اس کے مظہر یعنی تبسم، ہنسی اور قہقہہ ہی دراصل ہمیں سنجیدہ کائنات میں زندگی رکھنے کے ذمہ دار ہیں اور انہی کے سہارے ہم زندگی سے سمجھوتہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ مگر ایک اور طرح یہ احساسِ مزاح انسانی زندگی کو ناقابلِ برداشت بنانے کا ذمہ دار ہے۔ وہ اس طرح کہ انسان کائنات میں سب سے بڑا خواب پرست ہے اور اکثر و بیشتر اپنی امنگوں اور آرزوؤں کے تانے بانے سے ایک ایسا محل تیار کرتا رہتا ہے جس کی اساس محض خوابوں پر قائم ہوتی ہے،
اس کے برعکس زندگی خواب ہو یا نہ ہو، ایک سپاٹ اور ٹھوس حقیقت ضرور ہے چنانچہ جب اس کی امنگوں اور آرزوؤں کے رنگ محل اس کرخت اور خوفناک حقیقت سے زود یا بدیر ٹکراتے ہیں تو وہ کائنات کی سب سے زیادہ بے بس اور غمزدہ ہستی بن جاتا ہے اور کبھی کبھی خودکشی کے ذریعے غمگین زندگی کا خاتمہ کرنے پر بھی تُل جاتا ہے۔ احساسِ مزاح کا کام یہ ہے وہ زندگی کی بے لگام آرزوؤں، منہ زور امنگوں اور پُراسرار خوابوں پر متبسم انداز سے تنقید کرے اور یوں اسے حقائق کی کرخت اور خوفناک صورت دکھا کر اس شدید مایوسی سے بچا لے جو اس کی خوابوں کی منزل پر ہمیشہ سے اس کی منتظر ہے اور جس سے اس کا بچ نکلنا ایک امرِ محال ہے۔ دیکھا جائے تو احساسِ مزاح کا یہ کارنامہ ایک بہت بڑی انسانی خدمت ہے۔
زندگی کی کرخت سنجیدگی سے انسان کو بچانے اور اسے شکستِ خواب سے پیدا ہونے والے ناقابلِ برداشت صدموں کے لیے ذہنی طور پر تیار رکھنے کے علاوہ احساسِ مزاح کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ اس کا وجود سوسائٹی کی بنیادوں کو مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ وہ مثل کہ ’’ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا… بیٹھ اکیلے رونا ہو گا۔‘‘ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ مزاح کے طفیل انسان اور انسان کے مابین ایک ناقابل شکست رشتہ معرضِ وجود میں آتا ہے۔ عام زندگی میں بھی دیکھئے کہ ہنسی ایک متعدی بیماری کی طرح پھیلتی ہے اور جہاں چند لوگ ہنس رہے ہوں وہاں راہگیر بے جانے بوجھے بھی ان کی ہنسی میں شریک ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہنسی نہ صرف افراد کو باہم مربوط ہونے کی ترغیب دیتی ہے بلکہ ہر اس فرد کو نشانۂ تمسخر بھی بناتی ہے جو سوسائٹی کے مروجہ قواعد و ضوابط سے انحراف کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو مزاحیہ کردار صرف اس نئے مزاحیہ رنگ میں نظر آتا ہے کہ اس سے بعض ایسی حماقتیں سرزد ہوتی ہیں جن سے سوسائٹی کے دوسرے افراد محفوظ ہوتے ہیں۔
مثلاً اگر ایسا کردار چچا چھکن کی طرح اپنی اس عینک کی تلاش کرے جو اس نے اپنی ناک پر لگا رکھی ہو تو خواہ مخواہ اس پر ہنسنے کی ترغیب ہوتی ہے۔ قدیم قبائل میں اجنبیوں کے لباس، گفتار اور عادات و اطوار کو نشانۂ تمسخر بنانے کی جو بے شمار مثالیں ملتی ہیں وہ اسی زمرے میں شامل ہیں۔ دراصل ہنسی اس فرد کا مذاق اڑاتی ہے جو سوسائٹی کی سیدھی لکیر سے ذرا بھی بھٹکے اور اس غرض سے اڑاتی ہے کہ وہ پھر اس لکیر میں شامل ہو جائے۔ چنانچہ یہ بات ہنسنے والوں کے لیے تو باعثِ انبساط ہوتی ہے لیکن اس فرد کو رنج و ندامت سے ضرور ہم کنار کر دیتی ہے جس کے خلاف یہ عمل میں آئے۔
بہرحال یہ بات طے ہے کہ ہنسی ایک ایسی لاٹھی ہے جس کی مدد سے سوسائٹی کا گلہ بان محض غیرشعوری طور پر ان تمام افراد کو ہانک کر اپنے گلے میں دوبارہ شامل کرنے کی سعی کرتا دکھائی دیتا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے سوسائٹی کے گلے سے علیٰحدہ ہو کر بھٹک رہے تھے، یعنی ہنسی ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے سوسائٹی ہر اس فرد سے انتقام لیتی ہے جو اس کے ضابطۂ حیات سے بچ نکلنے کی سعی کرتا ہے۔ سماجی لحاظ سے ہنسی کا یہ پہلو اس لیے اہم ہے کہ اس کی بدولت سوسائٹی ان تمام بیرونی لیکن مضراثرات سے محفوظ رہتی ہے جن کو یہ نشانۂ تمسخر بناتا ہے۔ اس کے علاوہ ہنسی ان تمام اندرونی نقائص کے استیصال کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے جو مضحکہ خیز صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اردو ادب میں اکبر الہٰ آبادی کے ہاں مزاح کا جو افادی پہلو بڑے نمایاں انداز میں کارفرما نظر آتا ہے وہ ہنسی کے اس اصلاحی رجحان کی غمازی کرتا ہے۔
وزیر آغا
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments