Urdu

6/recent/ticker-posts

شوکت صدیقی کی یاد میں

شوکت صدیقی کا جنم 20 مارچ 1920 کو اتر پردیش کے شہر لکھنو میں ہوا۔ ان کے والد محترم کا اسم گرامی الطاف حسین صدیقی تھا۔ شوکت صدیقی نے تمام تعلیمی مراحل لکھنو میں ہی طے کیے۔ مطلب یہ کہ 1938 میں 18 برس کی عمر میں میٹرک پاس کیا۔ 1944 میں B.A کی سند حاصل کی جب کہ 26 برس کی عمر میں M.A سیاسیات میں لکھنو یونیورسٹی سے کیا۔ البتہ صحافتی زندگی کا آغاز انھوں نے حصول تعلیم کے درمیان میں ہی کر دیا اور 1944 میں وہ ماہنامہ ترکش کے مدیر نامزد ہو گئے یہ وہ دور تھا جب دوسری عالمگیر جنگ اپنے نقطہ عروج پر تھی، تحریک پاکستان و ہند کی آزادی و تقسیم کا عملی یقینی نظر آرہا تھا۔ 

یہ ضرور تھا کہ دیگر تمام نوجوانوں کی طرح شوکت صدیقی بھی اپنے مستقبل کے لیے فکر مند تھے البتہ 1950 میں جب کہ سقوط لکھنو کا عمل جاری تھا شوکت صدیقی کا پورا خاندان ہجرت کر کے لاہور آگیا اور بعدازاں ان کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا وہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہو چکے تھے۔ اسی باعث انھیں کوئی سرکاری ملازمت تو نہ حاصل ہو سکی چنانچہ انھوں نے مکمل طور پر صحافت سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کر لیا اور روزنامہ پاکستان اسٹینڈر و ٹائمز آف کراچی میں ملازمت اختیار کر لی اور بعد ازاں روزنامہ امروز سے وابستہ ہو گئے۔ انھوں نے صحافت کا پیشہ ضرور اختیار کیا مگر وہ حقیقی طور پر افسانہ نگار ہی تھے چنانچہ 1952 میں شوکت صدیقی کے افسانوں کا مجموعہ تیسرا آدمی چھپا اور منظر عام پر آیا۔ 

سنہ 1954 میں جب انجمن ترقی پسند مصنفین و کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد ہوئی تو فیض احمد فیض، عبداللہ ملک، حمید اختر، احمد ندیم قاسمی، سید سبط حسن کے ساتھ ساتھ شوکت صدیقی کو بھی پابند زنداں کر دیا گیا۔ 1958 وہ سال تھا جب شوکت صدیقی کا ناول ’’خدا کی بستی‘‘ منظر عام پر آیا ناول ’’خدا کی بستی‘‘ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ 60 برس میں اس کے 30 ایڈیشن چھپ چکے ہیں وہ بھی اردو میں اور پاکستان میں جب کہ اس ناول کا ترجمہ چینی، بلغارین، چیکوسلواکی، بنگالی و گجراتی زبانوں میں ہو چکا ہے جب کہ روس کی 17 زبانوں میں اس ناول کا ترجمہ ہو چکا ہے یوں یہ بات بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ ناول ’’خدا کی بستی‘‘ ایک بین الاقوامی ناول ہے یعنی بین الاقوامی اہمیت کا حامل ناول ہے۔

جب کہ اس ناول کو ڈرامائی شکل میں پاکستان ٹیلی ویژن سے بھی پیش کیا گیا چنانچہ ڈرامہ ’’خدا کی بستی‘‘ نے بھی ناول کی مانند بے مثال کامیابی حاصل کی اور یہ ڈرامہ پاکستان ٹیلی ویژن کے یادگار ڈراموں میں سے ایک ہے۔ شوکت صدیقی نے مزید دو ناولٹ و تین مکمل ناول بھی قلم بند کیے جب کہ ان کا اولین افسانہ ’’کون کسی کا‘‘ 1940 میں ہفت روزہ ’’خیام‘‘ لاہور میں چھپا تھا۔ شوکت صدیقی نے آٹھ ڈرامے تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ طبقاتی جدوجہد اور بنیاد پرستی کے نام سے اخباری کالم بھی 1988 میں لکھے جب کہ ان کا تحریر کردہ ڈرامہ ’’جانگلوس‘‘ بھی PTV سے پیش کیا گیا مگر نامکمل کیونکہ یہ ڈرامہ پنجاب کے جاگیرداری نظام کے پس منظر میں لکھا گیا تھا چنانچہ مخصوص طبقے کی شدید مخالفت کے باعث فقط 18 اقساط کے بعد ڈرامہ ’’جانگلوس‘‘ بند کر دیا گیا۔ 

شوکت صدیقی کو ان کی ادبی خدمات کے صلے میں 1960 میں آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1997 میں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ عطا ہوا۔ 2002 میں کمال فن ایوارڈ ان کے دست مبارک کی زینت بنا جب کہ 2003 میں ستارہ امتیاز، 2005 میں عالمی فروغ ادب ایوارڈ ان کے منتظر تھے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی و انجمن ترقی پسند مصنفین کے رکن بھی رہے۔ شوکت صدیقی کا نام ان صحافیوں میں شامل ہوتا تھا جو کہ سابق وزیر اعظم محترم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ روزنامہ مساوات کراچی کے مدیر رہے۔ یہی سبب تھا کہ وہ 1972 سے 1977 تک بھٹو صاحب کے تمام غیر ملکی دوروں میں ان کے ہم سفر رہے۔ کم و بیش 66 برس تک ادبی خدمات انجام دینے والے شوکت صدیقی 18 دسمبر 2006 کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور کراچی میں آسودہ خاک ہوئے اگرچہ شوکت صدیقی نے 86 برس 9 ماہ عمر پائی اور نظروں سے اوجھل ہو گئے البتہ ان کا قلمی کام زندہ ہے۔

ایم اسلم کھوکھر

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments